موجودہ یونانی دارُالحکومت ایتھنز کے علاقہ ایکروپولس کے قدیم ترین مندر میں موجود بُت یونانی آرٹ کے عروج کی داستان سناتے ہیں۔ پارتھینان نامی یہ معبد قدیم یونان کا فخر اور دنیا کی عظیم ثقافتی یادگاروں میں سے ایک ہے۔
ایکرو کے معنیٰ ہیں سب سے اونچا اور پولس کا لفظ شہر کے لیے برتا جاتا ہے جہاں یہ بُت خانہ قائم ہے۔ یہ عمارت بھی بلندی پر واقع ہے۔
یونانی دیو مالا میں ایتھینا نامی دیوی کو علم و فضل اور ذہانت سے آراستہ بتایا جاتا ہے۔ اسے تہذیب و تمدن کی پاسبان خیال کیا جاتا ہے۔ یہی دیوی ایتھنز کے اس قدیم مندر میں کبھی پجاریوں کی توجہ کا مرکز ہوا کرتی تھی۔ یونانی اساطیر اور بالخصوص قدیم مذہبی داستانوں میں ایتھینا کو پانچویں صدی قبلِ مسیح کی سب سے ممتاز اور نہایت بااثر دیوی لکھا گیا ہے اور ایکروپولس کے پہاڑی علاقے میں اس کے مندر کو پارتھینان کے نام سے پہچانا اتا ہے جہاں سیّاح کی آمدورفت رہتی ہے۔
یہ معبد اپنی تعمیر کے بعد سے ہزار ہا برس کے دوران قدیم یونان کی شان دار عمارت اور ایک اہم علامت کے طور پر مشہور رہا ہے۔ محققین کا اندازہ ہے کہ پارتھینان کی تعمیر کا کام 447 قبلِ مسیح میں شروع ہوا تھا۔ یہ عمارت 15 برس میں پایۂ تکمیل کو پہنچی۔ دورِ جدید کے ماہرین کے مطابق عبادت خانے کی تعمیر میں پتّھر کی 13400 اینٹیں استعمال کی گئی ہیں۔ اس کے چاروں طرف بلند ستون ہیں جن کی اونچائی 14 میٹر ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ قدیم دور میں یہ عمارت یونانی ریاست کی عظیم مذہبی شناخت اور سرگرمیوں کا بڑا مرکز تھی۔ اس میں ایک جانب دیوی کا مجسمہ رکھا ہوا تھا۔
ہزار ہا سال بیتے اور یونان میں تہذیب و ثقافت کی تبدیلی کے ساتھ فوج کشی اور حملوں نے اس عمارت کو نقصان بھی پہنچایا اور اس کی حیثیت بھی تبدیل ہوتی رہی۔چھٹی صدی عیسوی میں پارتھینان کو ایک مسیحی گرجے میں تبدیل کر دیا گیا اور پھر یہ مسیحیوں کے لیے اہم مقام بن گیا۔ چند صدی پہلے پھر وہ وقت آیا جب یونان پر عثمانی غالب آگئے اور 1456ء میں ایتھنز کی فتح کے بعد سلطان محمد دوّم کے حکم پر اس عبادت گاہ کو مسجد میں تبدیل کر دیا گیا۔ بعد میں اس پہاڑی علاقے پر لشکر کشی ہوئی تو عثمانی افواج نے یہاں خود کو مورچہ بند کر لیا اور معبد میں گولہ بارود ذخیرہ کر لیا۔ دوسری طرف ڈوگز آف وینس کی فوج تھی اور 1687 میں جب فریقین میں جھڑپ ہوئی تو پارتھینان کی سمت داغا گیا توپ کا ایک گولہ عثمانی فوج کے ذخیرۂ بارود میں دھماکے کا سبب بنا۔ اس کے نتیجے میں اس تاریخی عمارت کا ایک حصّہ برباد ہوگیا۔ بعد ازاں عثمانیوں کو یہ تاریخی مقام چھوڑنا پڑا مگر اگلے سال وہ اسے واپس لینے میں کام یاب ہوگئے اور یہاں تباہ شدہ حصّے کے قدیم پتھّروں سے ایک چھوٹی مسجد تعمیر کی۔ بعد کی صدیوں میں بھی اس تاریخی مقام کو تخریبی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑا۔
یہ انیس ویں صدی کے اوائل کی بات ہے جب ایک برطانوی سفارت کار اور فوجی تھامس بروس نے پارتھینان میں رہ جانے والے مجسمے عثمانیوں کی اجازت سے برطانیہ منتقل کردیے جو آج بھی میوزیم میں موجود ہیں۔
پارتھینان کی عمارت کو ایتھنز کی شان و شوکت اور ریاستی جاہ و جلال کی علامت بھی تصّور کیا جاتا ہے۔ ماہرینِ آثار اسے زمانۂ قدیم میں یونان کے اوّلین دور کی تہذیب کا خوب صورت نمونہ کہتے ہیں اور مؤرخین کا خیال ہے کہ یہ ان معبدوں میں سے ایک ہے جو یونان میں مذہبی طاقت اور تہذیب کی برتری کا اظہار ہے۔
from ARYNews.tv | Urdu – Har Lamha Bakhabar https://ift.tt/D7ftNJE
0 تبصرے