محمدی بیگم مصنفہ اور ہندوستان میں خواتین کے پہلے اردو ہفت روزہ ‘تہذیب نسواں’ کی مدیر تھیں۔ وہ عورتوں کی تعلیم اور ان میں‌ سیاسی و سماجی بیداری کے اوّلین علم برداروں میں شامل ہیں۔

وہ دہلی کے سید احمد شفیع کی صاحب زادی تھیں جو اکسٹرا اسٹیٹ کمشنر تھے۔ ان کا گھرانا روشن خیال تھا اور اس انتہائی قدامت پسند دور میں بھی والدین نے ذہین بیٹی کو تعلیم و تہذیب کے زیور سے آراستہ کیا۔ محمدی بیگم عمدہ عادات، اعلیٰ دماغ اور قوی حافظہ کی مالک تھیں۔ نہایت کم عمری میں لکھنے پڑھنے، سینے پرونے اور کھانے پکانے میں مہارت حاصل کر لی تھی۔ ان کی شادی 19 برس کی عمر میں مولوی سید ممتازعلی سے ہوئی جو تعلیم نسواں کے زبردست حامی تھے۔ ان کو شمس العلما کا خطاب بھی ملا تھا۔ محمدی بیگم سے ان کی یہ دوسری شادی تھی۔ انھوں نے گھر کا سارا انتظام اور ذمہ داری سنبھالی اور جب مولوی ممتاز علی نے عورتوں میں بیداری کی تحریک چلانے کا ارادہ کیا تو اس مشن میں بھی اپنے شوہر سے کسی طرح پیچھے نہ رہیں۔

اجل نے مہلت کم دی۔ شاید بہت ہی کم۔ سیدہ محمدی بیگم زندگی کی فقط تیس بہاریں ہی دیکھ سکیں، مگر اپنی فکر، اپنے نظریے اور تخیل سے اردو زبان اور ادب کو یوں مرصع و آراستہ کیا کہ اس کی نظیر کم ہی ملتی ہے۔

یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ محمدی بیگم مشہور ناول نگار امتیاز علی تاج کی والدہ تھیں۔ امتیاز علی تاج کو ان کے ڈراما انار کلی کی وجہ سے خاص طور پر یاد کیا جاتا ہے۔

شوہر کے ساتھ مل کر محمدی بیگم نے عورتوں کے رسالے کی ادارت سنبھالی۔ 1898ء میں تہذیبِ نسواں جاری ہوا جب کہ خاص طور پر ماؤں کی تربیت اور آگاہی کے لیے ماہ وار رسالہ مشیرِ مادر بھی 1904 میں منظرِ عام پر آیا۔ یہ سماجی و گھریلو امور، بچوں کی تربیت و پرورش میں مددگار مضامین پر مشتمل رسالہ تھا۔ تاہم محمدی بیگم کی تہذیبِ نسواں کے حوالے سے مصروفیات آڑے آگئیں اور یہ ماہ نامہ بند کر دیا گیا۔ تاہم انھوں نے بچوں کی نگہداشت اور تعلیم و تربیت کے لیے تہذیبِ نسواں میں ہی ایک گوشہ مخصوص کر دیا۔

محمدی بیگم نے اُس دور میں جب خواتین پر مختلف معاشرتی پابندیاں تھیں، خود کو عورتوں کی اصلاح اور ان کو عملی زندگی کے لیے تیار کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس سلسلہ میں انجمنِ خاتونانِ ہمدرد کا قیام عمل میں لائیں اور اس پلیٹ فارم سے عورتوں کو باعمل بنانے اور فلاح و بہبود کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کرتی رہیں۔ انجمنِ تہذیبِ نسواں بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔

ان کی چند تصانیف آدابِ ملاقات، نعمت خانہ، رفیقِ عروس، سگھڑ بیٹی، خانہ داری، شریف بیٹی کے عنوان سے شایع ہوئیں۔

محمدی بیگم نے شملہ میں 2 نومبر 1908 کو ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لی تھیں۔



from ARYNews.tv | Urdu – Har Lamha Bakhabar https://ift.tt/AiTY6hM