میاں بیوی

دنیا میں شاید ہی کوئی ایسے میاں بیوی ہوں جن کے درمیان کسی بات پر تلخ کلامی یا ناراضی نہ ہوئی ہو، یہ کوئی ایسی اچھنبے کی بات بھی نہیں ایک عام معاشرتی مسئلہ ہے۔

دوسری جانب کچھ لوگ تو اس تکرار اور اختلاف رائے کو محبت کے بڑھنے سے بھی تشبیہ دیتے ہیں جو شاید کسی حد تک درست بھی ہو۔

تاہم ایک دوسرے سے لڑنے والے میاں بیوی کو اس بات کا لازمی خیال رکھنا چاہیے کہ ان کی یہ تلخ کلامی ان کی اولاد میں نفسیاتی مسائل پیدا کرنے کا سبب نہ بنے۔

اس حوالے سے سیدتی میگزین میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جن والدین کے بچے حساس ہیں اور کسی بھی بات پر ناراض ہوجاتے ہیں تو ان پر بطور والدین یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کم از کم بچوں کے سامنے کسی قسم کے ردعمل کا اظہار نہ کریں چاہے ان کے آپسی اختلافات کتنے ہی شدید نوعیت کے کیوں نہ ہوں۔

اس سلسلے میں ماہرین نفسیات نے چند باتوں کا خصوصی طور پر تذکرہ کیا ہے جو مندرجہ ذیل ہیں۔

ایک دوسرے پر الزامات اور غیبت کرنا۔
میاں بیوی کے تعلقات خواہ طلاق کی نہج تک پہنچ گئے ہوں پھر بھی ان کو بچوں کے سامنے ایک دوسرے پر الزام تراشی قطعاً نہیں کرنی چاہیے جبکہ بچوں کی موجودگی کسی سے بھی ایک دوسرے کی غیبت تو اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ اس سے بچے ذہنی طور پر دباؤ کا شکار ہوتے ہیں اور وہ غصے اور بدتمیزی کی طرف جاتے ہیں۔

اسی طرح اکثر میاں بیوی کی ناراضی کے دوران یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ والدین بچوں کے ساتھ ہی ایک دوسرے کے خلاف باتیں کرتے ہیں جس سے بچوں کے ذہن میں ان کے خلاف غصہ جنم لیتا ہے۔ اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ آپ کے بچے جھگڑالو نہ ہوں تو متذکرہ باتوں سے اجتناب برتیں۔

بچوں کو پیغام رسانی کے لیے ہرگز استعمال نہ کریں۔
ایسا عموماً ان جوڑوں میں دیکھا گیا ہے کہ جن کے درمیان سخت رنجش ہو یا پھر علیحدگی ہو چکی ہو۔ اگر آپ اپنے شوہر یا بیوی سے کچھ کہنا چاہتے ہیں تو خود کہیں۔ ایسا نہ ہو سکے تو فون پر یا تحریری پیغام کے ذریعے آگاہ کریں۔

تلخ کلامی سے حتی الامکان گریز کریں۔
لڑائی عموماً اس وقت ہوتی ہے جب دونوں جانب برہمی شدید ہو اس لیے اس سے بچنے کا طریقہ یہی ہے کہ دونوں میں سے کوئی ایک پرسکون رہے اور بات کو نہ بڑھنے دے خصوصاً بچوں کی موجودگی میں۔ جب ایسا محسوس ہو کہ پارٹنر غصے میں ہے، پریشان ہے یا پھر کسی اور وجہ سے اس کا موڈ آف ہے تو نرمی کا مظاہرہ کریں اس کے جواب میں اگر دوسرا بھی وہی طرزعمل اختیار کرے گا تو لامحالہ لڑائی ہو گی جس کے نفسیاتی اثرات بچوں پر ہی پڑیں گے۔

 بچوں کے ساتھ گھل مل کر رہیں اور ان کی بات کو غور سے سنیں۔
اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ میاں بیوی کے درمیان لڑائی کے بعد بچوں کے ساتھ بات چیت میں کمی آ جاتی ہے جس کو بچے شدت کے ساتھ محسوس کرتے ہیں۔ اس لیے جیون ساتھیوں کے درمیان تعلقات کتنے ہی خراب کیوں ہوں اس کے قصوروار بچے نہیں ہیں اس لیے ان پر غصہ مت نکالیں۔ ان کے ساتھ بات کرتے رہیں اور ان کی سنیں بھی۔ اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ آپ کا ذہن بھی بٹ جائے گا اور برہمی میں کمی آئے گی۔

طلاق یا علیحدگی کی صورت میں کیا کیا جائے؟۔
اگر میاں بیوی میں علیحدگی ہوچکی ہے تو یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ اس کا اثر بچوں پر نہ پڑے اگر وہ اس پر بات کرنا چاہتے ہیں تو ان کے خیالات کو قبول کریں اگر وہ آپ کو بریک اپ کا ذمہ دار ٹھہراتا یا ٹھہراتی ہے تو اس کو نرمی سے سمجھائیں اور بتائیں کہ آپ اس کے جذبات کو سمجھتے ہیں اگر وہ جھنجھلاہٹ کا مظاہرہ بھی کرے تو اس کے جواب میں صبر سے کام لیں۔

خطرے کی گھنٹی۔
اگر جوڑے میں طلاق ہو چکی ہے یا پھر وہ اکٹھا بھی رہ رہے ہیں تاہم دونوں کے تعلقات خوشگوار نہیں اور بچے کا رویہ شدید خراب ہو رہا ہے یا پھر وہ گم صم رہنے لگا ہے اور درست طور پر کھانا بھی نہیں کھا رہا تو یہ خطرے والی بات ہے یہی وہ وقت ہے کہ جب اس کو معالج کے پاس لے جانا چاہیے۔

ماہرین کے مطابق اکثر اوقات بچوں کے لیے خاندان کے افراد ہٹ کر باہر کے کسی شخص سے اپنے جذبات اور دکھ کا اظہار کرنا آسان ہوتا ہے اور اس سے اسے پرسکون ہونے میں مدد ملتی ہے جو کہ اس بچے کیلئے کسی طور بھی درست نہیں۔



from ARYNews.tv | Urdu – Har Lamha Bakhabar https://ift.tt/ygvAGCb