زمانے کے ساتھ ساتھ لوگوں کا رواج اور چلن بھی بدلتا ہے۔ کل تک ہندوستان میں بادشاہت قائم تھی۔ قلعہ معلّیٰ اور شاہی خاندان سے ہر خاص و عام کو عقیدت اور محبّت تھی۔ لوگ مغل بادشاہ کی رعیَّت پر فخر کرتے تھے۔ شاہانِ‌ وقت اور امراء ایک طرف ہندوستانی باشندے بھی تہذیب و تمدّن اور روایات کے خوگر تھے۔ عوام بالخصوص شرفا نہایت مہذب اور شائستہ اطوار تھے۔

یہاں ہم آپ کو بہادر شاہ ظفر اور اس سے پہلے کے شاہی دور میں‌ عوام کے لباس اور ان کے پہننے اوڑھنے کے ذوق کے بارے میں بتاتے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

مرزا نوشہ کا ذکر تو جانے ہی دو، وہ تو ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بناتے ہیں۔ ان کی ٹوپی دنیا بھر سے جدا تھی، نہ ترکی نہ تاتاری، کھال کو (خواہ سمور ہو یا برہ) اس طرح سی لیا جاتا تھا کہ نیچے کا گھیر اوپر کے چندوے سے ذرا بڑا رہے۔ اس کے بعد چار کنگرے قائم کر کے کھال کو ٹوپی کی آدھی لمبان تک اس طرح کاٹ لیا کہ ٹوپی گڑ گج کی شکل بن گئی۔ بیچ میں چندوے کی جگہ مخمل یا گہرے رنگ کی بانات کنگروں کے کناروں سے ملا کر سی لی، اندر استر دے دیا، چلو مرزا نوشہ کی ٹوپی ہو گئی۔

شہر میں کلاہ تتری کا بہت استعمال ہے، جس کو عام اصطلاح میں چوگوشیا ٹوپی کہتے ہیں۔ یہ بھی کئی وضع کی ہوتی ہیں اور کئی طرح پہنی جاتی ہیں۔ جو ٹوپی شرفا استعمال کرتے ہیں، اس کا دمہ (گوٹ) ذرا نیچا ہوتا ہے۔ دمے کے اوپر چار پاکھے۔ پاکھے کی وضع بالکل شاہ جہانی محراب کی سی ہوتی ہے۔ چاروں کو اس طرح ملا کر سیتے ہیں کہ چاروں کونے کمرک (کمرخ) کے نمونے ہو جائیں۔ بعض لوگوں نے اس میں ذرا جدّت بھی کی ہے۔ وہ یہ کہ دمے کو اونچا کر کے، پاکھوں کی لمبان کو چوڑان سے کسی قدر بڑھا دیا ہے اور ان کے سِل جانے کے بعد جو پہل پیدا ہوئے ہیں ان کو پھر کاٹ کر کلیاں ڈال دی ہیں۔ اس طرح بجائے چار پہل کے آٹھ پہل ہو گئے ہیں۔ خوب صورتی کے لیے دمے کے کناروں پر پتلی لیس اور گوشوں کے کناروں پر باریک قیطون لگاتے ہیں۔

بادشاہ سلامت کی ٹوپی ہوتی تو اسی نمونے کی ہے مگر سلمے ستارے کےکام سے لپی ہوئی اور جا بہ جا موتی اور نگینے ٹکے ہوئے۔ اس قسم کی ٹوپی کئی طرح پہنی جاتی تھی۔ قلعے والے تو پاکھوں کو کھڑا رکھتے ہیں۔ باقی لوگ ان کو کسی قدر دبا لیتے ہیں۔ جو ٹوپی آٹھ پہل کی ہوتی ہے اس کے پاکھوں کو تو اتنا دباتے ہیں کہ گوشے، دمے کے باہر پھیل کر کنول کی شکل بن جاتے ہیں۔ اس قسم کی ٹوپی ہمیشہ آڑی پہنی جاتی ہے اور وہ بھی ا س طرح کہ اس کا ایک کونا بائیں بھوں کو دبائے۔ اس ٹوپی کے علاوہ ارخ چین (عرق چین) کی ٹوپی کا بھی رواج ہے۔ اس کا بنانا کچھ مشکل کام نہیں۔ ایک مستطیل کپڑے کےکناروں کو سر کی ناپ کے برابر سی لیا۔ نیچے پتلی سی گوٹ دے دی اور اوپر حصے میں چنٹ دے کر چھوٹا سا گول گتا لگا دیا۔ دہلی کی دو پلڑی ٹوپی اور لکھنؤ کی ٹوپی میں صرف یہ فرق ہے کہ یہاں یہ ٹوپی اتنی بڑی بناتے تھے کہ سر پر منڈھ جائے۔ بر خلاف اس کے لکھنؤ کی ٹوپی صر ف بالوں پر دھری رہتی ہے۔

ان ٹوپیوں کے علاوہ بعض بعض لوگ پچ گوشیا ٹوپی بھی پہنتے ہیں۔ اس ٹوپی میں پانچ گوشے ہوتے ہیں لیکن اس کی کاٹ چو گوشیا ٹوپی سے ذرا مختلف ہے۔ گوشوں کے اوپر کے حصے بس ایسے ہوتے ہیں جیسے فصیل کے کنگرے۔ نیچے دمے کی بجائے پتلی سی گوٹ ہوتی ہے۔ یہ ٹوپی قالب چڑھا کر پہنی جاتی ہے۔ قالب چڑھ کر ایسی معلوم ہوتی ہے جیسے ہمایوں کے مقبرے کا گنبد۔ عام لوگوں میں بڑے گول چندوے کی ٹوپی کا بھی بہت استعمال تھا۔ بعض تو بالکل سادی ہوتی ہیں اور بعض سوزنی کے کام یا فیتے کے کام کی ہوتی ہیں۔ اس ٹوپی کو بھی قالب چڑھا کر پہنتے ہیں۔

لباس میں انگرکھا بہت پسند کیا جاتا ہے۔ انگرکھے کی چولی اتنی نیچی ہوتی ہے کہ ناف تک آتی ہے۔ چونکہ ہر شخص کو کسرت کا شوق ہے اس لیے جسم کی خوب صورتی دکھانے کے لیے آستینیں بہت چست رکھتے ہیں اور بعض شوقین آستینوں کو آگے سے کاٹ کر الٹ لیتے ہیں۔ انگرکھے کے نیچے کرتا بہت کم لوگ پہنتے ہیں۔ قلعے والوں کے انگرکھے کے اوپر جامے واریا مخمل کی خفتان ہوتی ہے۔ بہت تکلف کیا تو اس کے حاشیوں پر سمور لگا لیا، نہیں تو عموماً پتلی لیس لگاتے ہیں۔ بٹنوں کی بجائے صرف ایک تکمہ اور گھنڈی ہوتی ہے جس کو ’’عاشق معشوق‘‘ یا ’’چشمے‘‘ کہتے ہیں۔ اس کی آستینیں ہمیشہ آدھی ہوتی ہیں۔ قلعے میں تو اس کو خفتان کہا جاتا ہے مگر شہر والے اس سینہ کھلے نیمہ آستین کو ’’شیروانی‘‘ کہتے ہیں۔ انگرکھے کے اوپر چوکور شالی رومال سموسا کر کے پیٹھ پر ڈال لیتے ہیں۔ اس رومال کو عام اصطلاح میں ’’ارخ چین‘‘ کہتے ہیں۔ کمر میں بھی بتی کر کے رومال لپیٹنے کا رواج ہے مگر بہت کم۔

پائجامہ ہمیشہ قیمتی کپڑے کا ہوتا ہے۔ اکثر گل بدن، غلطے، مشروع موٹرے، اطلس یا گرنٹ کا ہوتا ہے۔ پرانی وضع کے جو لوگ ہیں وہ اب بھی ایک ہی برہی کا پائجامہ پہنتے ہیں مگر تنگ مہریوں کے پائجامے بھی چل نکلے ہیں۔ سلیم شاہی جوتی کا استعمال شروع ہو گیا ہے۔ پھر بھی دہلی کے شرفا گھیتلی جوتی زیادہ پسند کرتے ہیں۔ شاید ہی شہر بھر میں کوئی ہوگا جس کے ہاتھ میں بانس کی لکڑی اور گز بھر کا لٹھے کا چوکور رومال نہ ہو۔ ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر لمبی پور کا ٹھوس بھاری بانس لیتے، تیل پلاتے، مہندی مل کر باورچی خانے میں لٹکاتے، یہاں تک کہ اس کی رنگت بدلتے بدلتے سیاہ ہو جاتی اور وزن تو ایسا ہو جاتا ہے گویا سیسہ پلا دیا ہے، جو نکلتا ہے، اینٹھتا ہوا نکلتا ہے۔ جس کو دیکھو چوڑا سینہ، پتلی کمر، بنے ہوئے ڈنڈ، شرفا میں تو ڈھونڈے سے شاید ایک بھی نہ نکلے گا جس کو کسرت کا شوق نہ ہو اور بانک، بنوٹ اور لکڑی نہ جانتا ہو۔ بچپن ہی سے ان فنون کی تعلیم دی جاتی ہے۔ مقابلے ہوتے ہیں، واہ واہ سے بچوں اور نوجوانوں کا دل بڑھاتے ہیں اور فنونِ سپہ گری کو شرافت کا تمغا سمجھتے ہیں۔

(ماخذ:‌ مضامینِ فرحت اللہ بیگ)



from ARYNews.tv | Urdu – Har Lamha Bakhabar https://ift.tt/tgxeVEw